Ad Code

palestine vs israel war

کیسے ہیں دوستو اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو چار ہفتے ہو گئے اور ایک طویل خاموشی کے بعد حزب اللہ لیڈر حسن  
 نصراللہ نے اپنا موقف دیا ہے۔

حزب اللہ آپ جانتے ہیں کہ لبنان کی غیر سرکاری ملیشیا ہے جو لبنان کی فوج سے کہیں طاقتور ہے۔ ایرانی مدد سے یہ اسرائیلی کے شمال میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑا سٹریٹیجک خطرہ ہیں۔ کئی دن سے انتظار ہو رہا تھا کہ حسن نصراللہ جمعے کو خطاب میں شاید اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کریں گے کیوںکہ وہ تین ساڑھے تین ہفتوں سے کچھ ںہیں کہہ پائے تھے۔ انھوں نے ایک گھنٹہ بیس منٹ کی طویل تقریر میں تمام سخت الفاظ بولے اسرائیل اور امریکہ کو دھمکیاں دیں۔  لیکن جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ انھوں نے بس یہ کہا کہ ہم تو8 اکتوبر سے جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے کسی تبدیلی یا جنگ تیز کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ جیسا تھا ویسے ہی جاری رہے گا۔ ہاں ایک بات انھوں نے واضح کی کہ حماس کا سات اکتوبر کا حملہ ہماری مشاورت سے نہیں ہوا۔ یہ حماس کی اپنی پلاننگ اور ایگزیکیوشن تھی۔ ہمیں بھی یہ بعد میں پتا چلا ہے۔ لیکن ہم اسے حماس کی کامیابی سمجھتے ہیں اور انھیں یہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ اسرائیل نے انھیں ایک غیر انسانی جیل میں رکھا ہوا تھا۔ ساتھ میں انھوں نے دوسری اہم بات یہ کی کہ وہ کبھی حماس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ جیسے ہر فوج جنگ سے پہلے اپنے مقاصد واضح کرتی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ جنگ ہار رہے ہیں یا جیت رہے ہیں۔ تو حزب اللہ لیڈر حسن نصراللہ نے اس جنگ میں دو مقاصد واضح کر دئیے۔ پہلا یہ کہ وہ چاہیں گے کہ سیز فائر ہو جائے جنگ رک جائے۔ دوسرا یہ کہ حماس کامیاب ہو۔ اب یاد رکھیں کہ حماس کی کامیابی اس جنگ میں بس اتنی ہے کہ اسرائیل انھیں ڈسمنٹل کیے بغیر واپس چلا جائے۔ یعںی حماس کا سروائیول ہی اس کی جیت ہے اور اسرائیل کی شکست ہے ایک اور بہت بڑی وارننگ انھوں نے اپنی تقریر میں اسرائیل کو دی کہ وہ لبنان پر حملہ کرنے کی غلطی نہ کرے۔ خاص طور پر پری ایمپیٹیو سٹرائیک کی غلطی نہ کرے ورنہ یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہو گی۔ ساتھیو آپ کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ حزب اللہ کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ایسے میزائلز اور راکٹس ہیں جو اگر وہ مسلسل فائر کرے تو اسرائیل کی سٹریٹیجک لوکیشنز واقعی بری طرح تباہ ہو جائیں گی۔ اس کے شہروں کا حلیہ بدل جائے گا۔ تو اس دھمکی کے پیچھے ان کی یہی صلاحیت ہے جو اسرائیل اور امریکہ جانتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد ان کے لیے بھی کچھ اچھے حالات نہیں رہیں گے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے لیے جتنا کچھ ہوتا ہے وہ جنگ سے اتنا ہی دور رہنا چاہتے ہیں۔ جس وقت لبنان میں حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ اپنے فالوورز سے بات کر رہے تھے تو اسی وقت امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن اسرائیل کے تیسرے وزٹ پر آ چکے تھے۔ وہ بیک ڈرو ڈپلومیسی میں مصروف ہیں اور اسرائیل سے انسانی بنیادوں پر عارضی جنگ بندی کا مطالبہ منوانا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہاں کے لوگوں کے لیے کچھ خوراک اور پاںی پہںچایا جا سکے۔ اور مسلم ولڈ کا غصہ امریکہ کے خلاف کم کیا جا سکے۔ لیکن ساتھ میں وہ اسرائیل کو اربوں ڈالرز اور ہزاروں ٹن اسلحہ بھی دئیے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد انھوں نے جو پریس کانفرنس کی اس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو نے ان کی بات نہیں مانی۔ وہ پریس کانفرنس میں ساتھ کھڑے بھی نہیں ہوئے۔ انھوں نے بیان جاری کیا کہ ہم کسی صورت جنگ بندی یا عارضی سیز فائر بھی نہیں کریں گے۔ کسی بھی پاز کے لیے جنگ بندی کے لیے، کھانا اور پانی سپلائی کرنے کے لیے پہلے حماس کو تمام قیدی رہا کرنے ہوں گے بغیر کسی شرط کے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ کی گفتگو سے لگتا ہے کہ امریکن اپنا تھوڑا سا سٹانس بدل رہے ہیں اسرائیل کی طرف۔ جب ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ حماس کے خاتمے تک اسرائیل کا ساتھ دیں گے؟ اس پر انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم کوئی گارنٹی نہیں دیتے لیکن اسرائیل اپنے تحفظ کے لیے جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ لیکن ہم یہ سب اس طرح چاہتے ہیں کہ انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو۔ اب یہ تو ساتھیو کہنے کی باتیں ہیں، اصل میں امریکہ ابھی چوبیس گھنٹے پہلے چودہ ارب ڈالرز کی امداد اسرائیل کے لیے غزہ کے اوپر بمباری کے لیے منظور کر چکا ہے۔ سینٹ میں یہ بل پاس ہو گیا ہے۔ جبکہ ایک سو چھ بلین ڈالرز کا پیکیج اس کے علاوہ اناؤس کر رکھا ہے، اسے ابھی پاس ہونا ہے۔ سالانہ چار ارب ڈالرز کی ملٹری ایڈ بھی اس کے علاوہ ہے۔ اب تک اسرائیلی اخبارات کے مطابق غزہ کی چھوٹی سی پچیس میل لمبی پٹی پر حملوں کے لیے تین ہزار ٹن اسلحہ کارگو شپس کے ذریعے اسرائیل پہنچ چکا ہے۔ اس کیلئے ایک سو کارگو فلائٹس اور پانچ شپس کو مصروف رکھا گیا۔ اتنا کچھ اسرائیل کو دینے کے ساتھ غزہ میں عام لوگوں کے لیے پانی اور خوراک پہنچانے کے لیے جو ٹرک گئے ہیں وہ ایک اسلحے کے کارگو شپ

سے بھی کم مالیت کے ہیں۔ اس سے آپ کو ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ پھر یہاں سے بیماروں، زخمیوں اور بوڑھوں تک کو نکلنے نہیں دیا جا رہا۔ غزہ کے جنوب میں رفاح کراسنگ ہے جو مصر میں کھلتی ہے۔ یہاں سے چار سو سے کچھ اوپر ایسے فلسطینیوں اور دیگر تنظیموں کے عملے کو نکال لیا گیا ہے جو ڈئیول نیشنل تھے۔ ایسے ڈئیول نیشنل جن کے پاس امریکی یا مصری پاسپورٹ تھے ان کو بھی جانے دیا گیا ہے۔ کچھ دن تک برطانوی اور دیگر نیشنلٹیز کے لوگ بھی نکال لیے جائیں گے۔ ایک ایسے زخمی ننھے لڑکے کو بھی نکال لیا گیا ہے جس کے والد کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کس قیامت کا منظر تھا وہاں۔ وہ ہزاروں لوگ جو کئی دن سے اسرائیلی بمباری سے پریشان اپنے آدھے یا سارے گھر والوں کی جانیں گنوائے رفاح بارڈر کھلنے، امداد ملنے یا جان بچانے کے لیے باہر جانے کا انتظار کر رہے تھے، انھیں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ کیونکہ امریکہ، اسرائیل، مصر اور فلسطینی اتھارٹی میں جن ناموں پر اتفاق ہو گا صرف وہی رفاح بارڈر کراس کر سکیں گے۔ یہ واپس بھیجے جانے والے اگر زندہ سلامت اپنے کیمپس یا غزہ شہر پہنچ گئے

Post a Comment

0 Comments

Close Menu