مائین کیمف ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر سیاسی شعور رکھنے والے انسان کو پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک ایسے شخص کی کتاب ہے جو نہ تو پیسے کا پجاری تھا اور نہ ہی اسے زن یا زمین کی کوئی ایسی ہوس تھی کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو۔ بس ایک غلط سوچ تھی، طاقت کے حصول کی بے پناہ خواہش تھی، اور پھر طاقت چھن جانے کا بے انتہا خوف تھا۔ اس سوچ، خواہش اور خوف نے کیا تباہی پھیلائی یہ ہم آپ کو ان دو وڈیوز میں اور سیکنڈ ولڈ وار کی سیریز میں دکھا چکے ہیں۔ آج ہم صرف کہانی سنائیں گے آپ کو اس کتاب "مائین کیمف" کی، جس میں ایڈولف ہٹلر نے اپنے سو کالڈ نظریات لکھے ہیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے یہ نظریات بنے کیسے؟ اس کتاب کو انھوں نے اس وقت لکھا جب وہ جیل میں تھے۔ مائی کیوریس فیلوز ہو یہ تھا کہ ایڈولف ہٹلر اپنے ملک میں جلد سے جلد اور کسی بھی جائز ناجائز طریقے سے انقلاب لانا چاہتے تھے۔ جرمنی کو عظیم بنانا ان کا نعرہ تھا۔ جرمنی جو کہ ان دنوں وایئمر ریپبلک تھا، وہاں انفلیشن اور ان ریسٹ بہت زیادہ تھا۔ تو کئی اور جماعتیں بھی تبدیلی کے نعرے لگا رہی تھیں۔ ایسے میں ایک دن ہٹلر نے اپنی نازی پارٹی کے ساتھ بئیر ہال کے باہر میونخ میں طاقت کا مظاہرہ کیا۔ آٹھ نومبر 1923 کو انھوں نے مسلح ساتھیوں کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹ کر انقلاب لانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ناکام رہی۔ ان کے کچھ ساتھی مارے گئے اور کچھ گرفتار ہو گئے۔ گیارہ نومبر کو ہٹلر کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ہٹلر پر غداری کا ملک میں دھنگے فساد کا مقدمہ چلا۔ اب ہٹلر یہ کرتے تھے کہ جرمنی کے خراب کا فائدہ اٹھا کر ایک دھواں دھار سی پروپیگنڈا تقریر ہر پیشی پر کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔ اب جرمنی کے حالات فسٹ ورلڈ وار، 1918 سے ہی اچھے نہیں تھے۔ تو لوگ ڈسپیریٹلی ہٹلر پر یقین کرنے لگے۔ جہاں جرمن سسٹم یں ہٹلر کے سخت نظریات کی وجہ سے ان کے بہت سےناقد تھے تو اب یہ تھا کہ وہاں کئی ان کے شیدائی بھی تھے، یہ ہر پیشی پر وہاں آ جاتے تھے۔ فروری 1924 کو یہ ٹرائل مکمل ہوا اور عدالت نے انھیں غداری کا مرتکب قرار دے دیا۔ انھیں پانچ سال کی سزا ہو گئی۔ اسی سزاد کے دوران انھوں نے وہی تقریریں جو وہ ہر پیشی پر کیا کرتے تھے انھیں تفصیل سے لکھنا شروع کر دیا۔ لیکن جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ جرمنی کے حالات تو واقعی خراب تھے، اور جرمن سسٹم میں کئی لوگ ان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگے تھے اور انھیں نجات دہندہ بھی ماننے لگے تھے۔ سو ایسے ہی سیاسی لوگوں کی کوششوں سے ہٹلر کو پانچ سال سے بہت پہلے، صرف نو ماہ بعد ہی رہائی مل گئی۔ اس وقت تک وہ اپنی کتاب کا پہلا حصہ مکمل کر چکے تھے جو 1925 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد باقی کتاب انہوں نے 1926 میں مکمل کی اور پھر دوسرا حصہ شائع ہوا۔ آج کل اس کتاب کے دونوں حصوں کو ایک ساتھ شائع کیا جاتا ہے مائین کیمف کا جو اب آپ ورژن دیکھیں گے یہ دونوں حصوں کو یکجا کر کے شائع کیا ہوتا ہے مائین کیمف کے دیباچے میں ہی ہٹلر لکھتے ہیں کہ ایک تو میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری جدوجہد اور مشن سے واقف ہو جائیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں یہ سب کسی لالچ کے تحت کر رہا ہوں، بلکہ انھیں پتا ہونا چاہیے کہ میں ایک عظیم تر نظریے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ نوجوانو کو میری آیڈئیالوجیکل جرنی سے واقف ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی وہ یہ بات بھی واضح کر دیتے ہیں کہ یہ کتاب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو میری تحریک کو، میری جدوجہد کو درست مانتے ہیں۔ جو لوگ مجھ سے اتفاق ہی نہیں کرتے کہ جرمن قوم ایک عظیم اور سپیرئیر، برتر قوم ہے، باقی دنیا سے افضل ہے، وہ میرے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ ہٹلر کہانی اپنے بچپن سے شروع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ اوسٹریا میں پیدا ہوئے تھے جو کہ اس وقت ایک بہت بڑی ایمپائر تھا۔ موجودہ ہنگری، چیک ریپبلک، سلواکیہ اور بوسنیا کے علاقے اس کی سلطنت میں شامل تھے۔ انیسویں صدی میں جرمن نسل کے لوگوں کی بڑی تعداد اوسٹرین ایمپائر کے کنٹرول والے علاقوں میں رہتی تھی۔ جرمنی کے بعد سب سے زیادہ جرمن یہیں آباد تھے۔ اس کے علاوہ بھی یورپ میں کئی جگہوں پر جرمن رہتے تھے۔ ان مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے جرمنوں میں ایک زیرزمین تحریک بھی چل رہی تھی۔ جس کا مشن تھا کہ ساری جرمن قوم کا ایک بڑا ملک قائم کیا جائے۔ ایک عظیم سلطنت بنائی جائے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ جہاں جہاں جرمن قوم کے لوگ آباد ہیں، وہ ملک ملا کر ایک بڑا ملک بنایا جائے۔ خصوصا اوسٹرین ایمپائر کو تو اس میں ضرور ہی شامل کیا جائے۔ یہ بھی اس تحریک کی آئیڈیالوجی میں شامل تھا۔ تو ایڈولف ہٹلر نے جرمن قوم پرستی کے اسی پرشور ماحول میں ایک جرمن فیملی کے ہاں آنکھ کھولی۔ وہ اپنی کتاب میں جرمن پیدا ہونے پر بہت فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اوسٹریا کا چھوٹا قصبہ "بروناؤ ایم اِن" تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے۔ یہ چھوٹا سا قصبہ جرمنی اور اوسٹریا کی سرحد پر واقع ہے۔ ہٹلر ابھی چھوٹے ہی تھے تو ان کے والدین ایک اور اوسٹرین علاقے ’لینز‘ میں منتقل ہو گئے تھے۔ ایڈولف ہٹلر کا بچپن بھی زیادہ تر ’لینز‘ میں ہی گزرا۔ لیکن وہ "بروناؤ ایم اِن" کے ساتھ اپنی اٹیچمنٹ کو نہیں بھولے کہ یہ ان کی قوم جرمن کے ملک جرمنی کے بالکل ساتھ لگتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان دونوں ریاستوں یعنی جرمنی اور "اوسٹ ریا" کا ایک ہونا ہماری موجودہ نسل کیلئے بہت اہم ہے۔ اتنا اہم ہے کہ ہمیں اس مقصد کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دینی چاہئیں۔ ان کے مطابق ان دونوں اوسٹریا میں جرمنوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوتا تھا۔ ان کی شناخت اور زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ یہاں کی حکومت اپنی ایمپائر سے جرمنوں کا بطور قوم خاتمہ ہی کر دینا چاہتی تھی۔ اوسٹریا میں جرمنوں کے مقابلے
میں ’سلیوز‘ نسل کے لوگوں کو بھرپور سرکاری حمایت ملتی تھی۔ سلیوز وہ نسل ہے جس جس سے یورپ کے سربز، کروشیئنز، چیکس اور رشیئنز تعلق رکھتے ہیں۔تو خیر جرمن لوگ، اوسٹریا میں اس ناانصافی کا مقابلہ کر رہے تھے۔وہ اس طرح کہ جرمن بچے سکولز میں جرمن قومی پرچم کے رنگوں والے لباس پہنتے تھے.اور ایک جرمن قومی وطن کے ترانے گاتے تھے۔ان ترانوں میں ایک اٹھارہویں صدی کے اوسٹرین کمپوزر کا لکھا ہوا مقبول گیت بھی تھا.جسے سانگ آف جرمنی بھی کہتے ہیں۔جس کے بول کچھ یوں تھے کہجرمنی جرمنی۔۔۔ ہر چیز سے بڑھ کر۔۔۔ کل جہان سے برتر جرمنیاس کے علاوہ اس طرح کے گیت بھی گائے جاتے تھےکہ جرمن نوجوان مت بھولو کہ تم ایک جرمن ہو.اور ننھی لڑکی یاد رکھ تمہیں ایک جرمن ماں بننا ہے۔ہٹلر کے بقول اوسٹرین ٹیچرز جرمن بچوں کو اپنے ملک میں ایسے گیتوں پر مارتے پیٹتے تھے۔بچوں کو جرمانے بھی کئے جاتے تھےلیکن جرمن بچوں کی قوم پرستی ختم نہیں ہوتی تھی۔کیونکہ اس کی تعلیم گھر سے ملتی تھی.بچے ایک دوسرے کو سلام کے طور پر بھی ’ہیل‘ کہتے تھے۔’ہیل‘ جرمن زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب سلام یا سلیوٹ ہے۔اسی لفظ سے بعد میں ہٹلر نے ’ہیل ہٹلر‘ والا نازی سلیوٹ تخلیق کیا تھا۔تو ہٹلر کے مطابق جب جرمن قوم اوسٹریا میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی
قوم اوسٹریا میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی
تو وہ خود بھی ایک کشمکش کا شکار تھے۔
وہ یہ کہ وہ خود تو ایک جرمن قوم پرست کی پرسنٹلی میں ڈھل رہے تھے،
لیکن ان کے والد ایک اوسٹرین سول سرونٹ تھے۔
وہ ہٹلر کو بھی ایک پکی سرکاری نوکری دلوانا چاہتے تھے۔
لیکن ہٹلر اوسٹرین ایمپائر سے دل ہی دل میں نفرت کرتے تھے۔
وہ ایک سٹول پر بیٹھ کر ساری زندگی سرکاری فارمز بھرنے کے سخت خلاف تھے۔
ویسے بھی انھیں پینٹنگ کرنا پسند تھا
اور روزگار کیلئے ان کے ذہن میں آرکیٹکچر کا پیشہ تھا۔
سرکاری ملازم وہ ہرگز نہیں بننا چاہتے تھے۔
یہ کشمکش اس وقت ختم ہوئی جب ہٹلر کے والد کی زندگی ختم ہوئی۔
ایلائیس ہٹلر 1903 میں انتقال کر گئے، جبکہ ہٹلر صرف چودہ سال کے تھے۔
چند برس بعد 1907 میں ہٹلر کی والدہ بھی چل بسیں۔
ہٹلر کو اپنی والدہ سے بہت لگاؤ تھا۔
والدہ کی موت کے بعد وہ لِینز چھوڑ کر "اوسٹ ریا" کے دارالحکومت ویانا منتقل ہو گئے۔
کچھ سٹرگل کے بعد وہ یہاں ایک نقشہ نویس، ڈرافٹس مین بن گئے
اور گھروں کے نقشے بنا کر اچھے خاصے پیسے کمانے لگے۔
یوں ان کے مالی حالات کچھ بہتر ہو گئے۔
اس کے ساتھ ہی ان کی بھرپور سیاسی اور نظریاتی گروتھ بھی ہونے لگی۔
ویانا میں انہوں نے دو چیزوں سے نفرت کرنا سیکھا۔
پہلی چیز تھی پارلیمانی جمہوریت
اور دوسری تھی یہودیت جس سے انہوں نے نفرت کی۔
یہودیت پر بات اگلے وی لاگ میں ہو گی،
سو ابھی صرف ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں۔
ہٹلر نے جو اس بارے میں کہا اور انہوں نے دیکھا۔
مائین کیمف کے مطابق ہٹلر نوجوانی میں جمہوریت کو بہتر سیاسی نظام سمجھتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ میں تو سیاسی آزادی ہی کو آئیڈیل سمجھتا تھا۔
میں کسی اور حکومتی نظام کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
میری نظر میں تو ڈکٹیٹرشپ کو حکومتی نظام سمجھنا ہی ایک احمقانہ بات تھی۔
ہٹلر جمہوریت اور اس کے ساتھ پارلیمانی نظام کو اس لئے پسند کرتے تھے
کیونکہ انہیں برٹش پارلیمنٹ جو کہ لندن میں قائم تھی وہ بہت پسند تھی۔
وہ کبھی خود تو نہیں گئے تھے لیکن وہ اخبارات میں
برطانوی پارلیمنٹ کے متعلق بہت سی خبریں پڑھتے رہتےتھے۔
اوسٹرین پریس اس کی بہت تعریفیں کرتا تھا۔
ہٹلر کو بھی پڑھ پڑھا کر اور سن سنا کر قدرتی طور پر اسی بات نے کنوئنس کیا
کہ کتنی اچھی بات ہے کہ ملک کے فیصلے عوامی اکثریت سے ہوتے ہیں۔
کوئی ایک بادشاہ پوری قوم کا فیصلہ نہیں کرتا۔
اسی پسندیدگی کی وجہ سے ہٹلر میں یہ شوق پیدا ہوا
کہ وہ اس نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
پھر یہ تو ممکن تھا۔ گھر کی بات تھی۔
انھیں لندن جانے کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔
کیونکہ ایک پارلیمنٹ ویانا میں پہلے سے موجود تھی۔
اوسٹرین ایمپائر نے بھی برٹش پارلیمنٹ کی طرز پر ہی 1861 سے ایک پارلیمنٹ تشکیل دے رکھی تھی۔
اس پارلیمنٹ کے دو حصے تھے،
اپر ہاؤس، سینٹ جسے ہاؤس آف لارڈز کہا جاتا تھا۔
جبکہ لوئر ہاؤس جسے ہم قومی اسمبلی بھی کہتے ہیں اسے اوسٹریا میں ہاؤس آف ڈیپیٹیز کہتے تھے۔
تو ہٹلر اسی لوئر ہاؤس کی کارروائی دیکھ کر ڈیموکریسی کا مشاہدہ کر سکتے تھے،
اپنا شوق لندن جائے بغیر پورا کر سکتے تھے۔
سو ہٹلر اپنے آئیڈیل سیاسی نظام کی ورکنگ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے
اوسٹرین پارلیمنٹ میں چلے گئے۔
حالانکہ یہ اس ملک کی پارلیمنٹ تھی جس سے وہ نفرت کرتے تھے
لیکن پھر بھی شوق شوق میں وہ پارلیمنٹ کے ہاؤس آف ڈیپیٹیز میں داخل ہو گئے۔
کیونکہ ان دنوں غیر ممبرز بھی پارلیمنٹ میں جا سکتے تھے۔
اب پارلیمنٹ میں انھوں نے کیا دیکھا کہ سینکڑوں اراکین اسمبلی
ایک اکنامک ایشو پر، معاشی مسئلے پر بات کر رہے ہیں۔
لیکن یہ بات کم اور جھگڑا زیادہ لگتا تھا۔
کیونکہ ہر طرف ایک شور شرابہ تھا
ایک کو دوسرے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔
پھر انھیں اسمبلی کی ڈبیٹ کا جتنا بھی مطلب سمجھ آ رہا تھا،
ان کے مطابق یہ بہت لو لیول کی بحث ہو رہی تھی۔
ان کے خیال میں اس کی انٹلیکچوئل ویلیو زیرو تھی۔
پھر انھیں یہ بھی برا لگا کہ اوسٹریا میں جرمنوں کی اکثریت تو ہے،
لیکن اسمبلی میں زیادہ لوگ جرمن نہیں بلکہ سلیوز تھے۔
یعنی سرب، بوسنین، کروشیئن وغیرہ زیادہ تھے۔
یہ لوگ اپنے الگ الگ لہجوں میں بات کر رہے تھے
اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ کسی کو کوئی سن بھی رہا ہے یا نہیں!
ایک بے ہنگم سی ہڑبونگ میں ایک بے ترتیب سا ہجوم اچھل کود رہا تھا اور بس۔
اس سب کے بیچ میں، بقول ہٹلر، ایک فضول سا بوڑھا اسپیکر تھا بار بار گھنٹی بجا کر
ہاؤس کو پرسکون کرنے کی ناکام کوششش کر رہا تھا۔
وہ کبھی اپیل پر اپیل کرتا اور کبھی سخت وارننگز دینے کی اپنی سی کوشش کرتا۔
ہٹلر یہ سب دیکھ کر پہلے تو ہنسے بغیر نہیں رہ سکے۔
اس کے بعد ایک برس تک وہ اوسٹرین پارلیمنٹ میں جاتے رہے،
مشاہدہ کرتے رہے اور اسے ہی جمہوریت سمجھ کر ایک نتیجے پر پہنچے۔
انھوں نے سمجھا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں بہت سے سمجھ بوجھ سے عاری لوگ
بیٹھ کر زیادہ لوگوں کے ووٹوں سے ایک غلط نتیجے تک پہنچتے ہیں۔
یعنی وہ پارلیمانی سسٹم ہی کے خلاف ہو گئے۔
وہ لکھتے ہیں کہ میرے ذہن میں ان نمائندوں کی جو تصویر بن گئی تھی
وہ پھر کبھی تبدیل نہیں ہو سکی۔
ہٹلر شکر کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے میرے پہلے وزٹ نے ہی
مجھے ایک ایسی تھیوری میں پھنسنے سے بچا لیا
جو بہت سے لوگوں کو بڑی اچھی لگتی ہے۔
حالانکہ اصل میں تو یہ انسانی پستی کا اظہار ہے۔
اب اس بات سے ہٹلر بالکل لاتعلق ہو گئے تھے
کہ پارلیمنٹ میں جرمن زیادہ ہیں یا سلیوز،
کیونکہ پارلیمانی جمہوریت کو ہی انہوں نے سرے سے مسترد کر دیا تھا۔
اس کی وجوہات وہ کھل کر لکھتے بھی ہیں۔
ان کے مطابق پارلیمانی نظام میں سب سے بڑی خامی یہ ہے
کہ اس غلط فیصلے کے بعد ذمہ دار کوئی بھی نہیں ہوتا۔
ہر کوئی یہ کہہ کر جان چھوڑا لیتا ہے
کہ جناب یہ کوئی میرا اکیلے کا فیصلہ تھوڑی تھا، اکثریت کا تھا۔
ہٹلر سمجھتے تھے کہ اہل ترین لوگوں کو ذمہ دار بنا کر سارا معاملہ انھی پر چھوڑنا چاہیے۔
ورنہ پھر وہ کم تر لوگ جو گنتی میں زیادہ ہیں،
ان لوگوں سے جیت جائیں گے جو ہیں تو اعلیٰ ہیں لیکن گنتی میں کم ہیں۔
عین ممکن ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی ایک رباعی میں
جس مرد فرنگی کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ یہی ایڈولف ہٹلر ہوں۔
شاید علامہ اقبال نے کہیں پڑھا ہو ایسا کیونکہ وہ جس مرد فرنگی کی بات کر رہے ہیں
آپ یاد رکھیں کہ اس دور میں یورپ کے لوگوں کو اہل فرنگ یعنی فرنگی کہا جاتا تھا۔
یعنی جو اقبال نے کہا وہ کچھ یوں تھا کہ
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تو خیر ہٹلر کے خیال میں پارلیمانی ڈیموکریسی میں دوسری بڑی خامی یہ ہے
کہ اس نظام میں کوئی ایسا شخص سامنے آ ہی نہیں سکتا
جس میں لیڈر شپ کی غیرمعمولی خوبیاں ہوں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسمبلیوں میں جو زیادہ لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں،
وہ بہت چھوٹی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اور ان کے سامنے جیسے ہی کوئی بلند قامت، کوئی اعلیٰ مرتبت ذہین فطین شخص منتخب ہو کر آ بھی جائے
تو یہ سارے پست لوگ اس کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ وہ اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اور اسے سسٹم سے نکال باہر کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
تیسری خامی ان کے نزدیک یہ ہے کہ اگر اعلیٰ دماغ شخص،
لیڈرشپ کے رول میں آ بھی جائے تو کام نہیں کر سکتا۔
کیونکہ اس کی ساری توانائی چھوٹے دماغ کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں لگ جاتی ہے۔
اسے ان سے بارگین کرنا پڑتا ہے جو بارگین کے قابل ہی نہیں ہوتے۔
وہ طنزیہ طور پر لکھتے ہیں کہ کیا ایک سٹیٹس مین کا یہی کام رہ گیا ہے
کہ وہ نئے تعمیری آئیڈیاز اور پلانز بنانے کے بجائے
بیوقوفوں، یعنی اراکین پارلیمنٹ کو یہ سمجھاتا پھرے
کہ اس کے پراجیکٹس کتنے ضروری ہیں؟
کیا یہ اس کا کام ہے کہ وہ ان احمقوں کی تربیت بھی کرے
اور ایک درست کام کے لیے ان کی منت سماجت بھی کرے؟
چوتھی خامی ان کے خیال میں یہ ہے
کہ اراکین پارلیمنٹ ایسے فیصلے بھی کرتے ہیں جن کیلئے وہ کوالیفائیڈ نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر اگر کسی پارلیمانی ٹریبونل کے سامنے
کوئی اکنامک ایشو ٹیبل ہوتا ہے
تو دس میں سے نو لوگوں نے تو کبھی جمع تفریق بھی سلیقے سے نہیں کی ہوتی۔
پھر بھی ان میں سے کسی ایک میں بھی اتنی اخلاقی جرت نہیں ہوتی
کہ وہ اٹھ کر کہہ سکے کہ جینٹل مین آئی ایم سوری،
مجھے اکانومی کا کچھ نہیں پتا۔
ہٹلر لکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کبھی کوئی ایسا کر بھی دے گا
تو اس کے ساتھی اسے گدھا سمجھ کر پارلیمنٹ سے باہر پھینک دیں گے۔
پانچویں نمبر پر ان کا خیال تھا کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے
جس میں کوئی بھی چالباز کلرک مائنڈ سیٹ کا آدمی دھوکا بازی سے بھی حکومت میں آ سکتا ہے۔
اب دیکھیں کہ ڈیموکریٹک سسٹم کے ساتھ ساتھ ہٹلر عوامی شعور کو بھی کسی قابل نہیں مانتے تھے۔
اسی لیے وہ الیکشن کے پراسیس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
ان کا ماننا تھا کہ ووٹر درست لیڈر چننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
وہ سمجھتے تھے کہ ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا آسان ہے لیکن
الیکشن کے ذریعے کسی عظیم آدمی کا منتخب ہو جانا ناممکن ہے۔
اچھا اب سوال ہو گا کہ اگر وہ ڈیموکریسی، پارلیمانی سسٹم اور ووٹنگ کے خلاف تھے
تو ان کے خیال میں متبادل نظام کیا تھا؟
ہٹلر نے اس نظام کا نقشہ اپنی کتاب مائین کیمف میں بتایا ہے۔
وہ اپنے سسٹم کو "جرمن ڈیموکریسی" کہتے تھے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اس نظام میں لیدڑ کو آزادی سے چنا جائے گا
جو اپنے تمام ایکشنز کی ذمہ داری قبول کرے گا۔
مسائل کو میجورٹی کے ووٹس سے حل نہیں کیا جائے گا
بلکہ ایک ایک مسئلے پر ایک ایک فرد فیصلہ کرے گا
اور وہ ذمہ دار بھی ہو گا۔
اپنے فیصلوں کے بدلے میں ذمہ دار شخص زندگی تک داؤ پر لگا کر
نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اگر حقیقی جرمن ڈیموکریسی میں کوئی غلط شخص بائی چانس حکمران بن بھی گیا
تو اسے بڑی آسانی سے نکالا جا سکے گا۔
اسے یہ کہا جائے گا کہ بدمعاش دفع ہو جاؤ،
ان سیڑھیوں کو اپنے پیروں سے گندا مت کرو
جو تاریخ کے مندر کے دروازوں تک جاتی ہیں۔
یہ دروازے شکاریوں کیلئے نہیں بلکہ عظیم کردار کے لوگوں کیلئے بنے ہیں۔
لیکن یہ ہو گا کیسے؟
کیسے اسے نکلا باہر کیا جائے گا؟
ہٹلر نے یہ واضح نہیں کیا۔
کتاب کے پہلے حصے میں وہ ڈیموکریسی کے ساتھ
دوسری جس چیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں،
وہ دنیا میں تیزی سے پھیلتا پریس تھا۔
آج کی زبان میں آپ اسے میڈیا کہہ لیں۔
وہ سمجھتے تھے کہ پارلیمانی جمہوریت کا غلط آئیڈیا پھیلانے میں
پریس کا سب سے زیادہ قصور ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ویانا میں میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑا
جو اس مشین یعنی پریس کو کنٹرول کرتے تھے
اور اس کے ذریعے آئیڈیاز کو پھیلاتے تھے۔
پہلے تو میں اس مشین کی طاقت سے حیران ہوا
کہ کتنے کم وقت میں یہ آلہ عوام کا ذہن بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پریس محض چند روز میں کسی بھی فضول سے معاملے کو قومی سطح کا ایشو بنا سکتا ہے
اور کتنے ہی اہم معاملے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پریس الیکشن کے دوران
ایسے ناموں کو بھی مشہور بنا دیتا ہے
جنہیں محض ایک ماہ پہلے تک کوئی جانتا بھی نہیں ہوتا۔
جبکہ پرانی، آزمائی ہوئی شخصیات جو ابھی زندہ اور ایکٹو ہوتی ہیں
لوگ انہیں یوں بھلا دیتے ہیں جیسے وہ تو کب کے مر گئے۔
کچھ لوگوں کی اتنی کردار کشی کی جاتی ہے
کہ لگتا ہے کہ وہ برائی کی مستقل علامتیں بن کر رہ جائیں گے۔
اور کچھ کی بہت تعریف بھی کرتا ہے۔
پریس کے لوگ انتہائی ذاتی نوعیت کے خاندانی معاملات میں بھی ٹانگ اڑاتے ہیں
اور وہاں سے ایسی باتیں ڈھونڈ نکالتے ہیں
جس سے ان کے دشمن کی زندگی برباد ہو کے رہ جاتی ہے۔
تو دوستو مائین کیمف پریس اور جمہوریت کے خلاف
اس قسم کی پاپولر کامنٹری سے بھری ہوئی کتاب ہے۔
جو بنیادی مسئلہ سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ
ہٹلر کسی معاملے میں ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتے تھے
اور وہ ڈیموکریسی جو انھوں نے دیکھی اور کسی حد تک سمجھی تھی،
اس میں انھیں لگتا تھا کہ کوئی بھی کسی بھی فیصلے کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ڈیموکریسی میں پارلیمانی لیڈر فیصلوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
پھر ہر وزارت اپنے معاملے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
ہٹلر غلط طور پر یہ سمجھتے رہے کہ یہ نظام کم ذہنی سطح کے لوگوں کو ہی اوپر لے کر آتا ہے
حالانکہ انھی کے دور میں امریکہ جس نے تیزی سے ترقی کی
اور انڈسٹیل ایمپائر کھڑی کر دی اس کے لیڈرز ڈیموکریسی ہی سے اوپر آئے تھے۔
تھامس جیفریسن، جیمز میڈیسن، ابراہم لنکن،
اور تھیوڈور روزویلٹ ڈیموکریسی ہی کی پیداوار تھے۔
پھر برطانیہ نے جو شاندار ترقی کی تھی
اس کے پیچھے بھی ڈیموکریٹک لیڈرشپ ہی تھی۔
پرائم منسٹر ویلیم گلاڈسٹون اور بنجمن ڈیزریلی
جنھوں نے برٹش ایمپائر میں بڑی بڑی ریفارمز کیں
وہ ڈیموکریٹک سسٹم سے ہی آئے تھے۔
پھر ہٹلر نے اپنے اہم ہمسایہ ملک فرانس میں ڈیموکریسی کو بھی سٹڈی نہیں کیا تھا۔
حالانکہ وہاں کئی دہائیوں کے انتشار اور خون خرابے کے بعد
آخرکار 1870 سے ڈیموکریسی ہی نے امن پیدا کیا تھا۔
پہلی بار سٹیبلٹی کا دور جمہوریت کی کامیابی تھا۔
پھر اسی کو تھرڈ فرنچ ریولوشن کہتے ہیں
اسی طرح ان کے ایک اور یورپی ہمسایے سوئٹزرلینڈ میں بھی
ڈائریکٹ ڈیموکریسی پوری طرح کامیاب تھی
اور ایک خوشحال معاشرے کو جنم دے چکی تھی۔
مطلب یہ کہ ہٹلر جس سسٹم اور جس پراسیس کو سطحی اور نچلی ذہنیت کہہ رہے تھے،
دراصل اس سارے سسٹم کے بارے میں ان کی اپنی ریسرچ بہت سطحی اور نچلے درجے کی تھی۔
انھوں نے اسٹرین پارلیمنٹ جو کہ ایک طاقتور بادشاہ کے ماتحت تھی،
جس میں وزیراعظم بادشاہ کی مرضی سے بنتا تھا،
فیصلوں پر آخری اختیار بادشاہ کا ہوتا تھا
اور یہ سسٹم اسٹریا میں ابھی بہت امیچور تھا،
اسے ہی پورا سسٹم سمجھ کر فیل قرار دے دیا۔
قدرے میچور ڈیموکریسیز امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو تو انھوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔
ہٹلر نے مائین کیمف میں صرف جمہوریت کو ہی برا بھلا نہیں کہا بلکہ
وہ جرمن حکومت پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ جرمنی کی حکومت اوسٹریا کو اپنا دوست سمجھتی تھی۔
اس نے کبھی بھی "اوسٹ ریا" میں جرمنوں کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک کو
روکنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
جرمن ریاست نے اوسٹریا کے ساتھ فوجی اتحاد بنایا تھا
جو کہ ایک غلط فیصلہ تھا،
لیکن پھر بھی، اس اتحاد کے بدلے میں وہ جرمنوں کے تحفظ کی ضمانت لے سکتے تھے۔
مگر انھوں نے ایسا بھی نہیں کیا۔
اس لئے ان کا اوسٹریا سے اتحاد ایک فضول حرکت تھی۔
اس طرح جرمنوں نے اوسٹریا کی طاقت کا بھی غلط اندازہ لگایا۔
ایک ایسی ریاست جو تباہی کے دہانے پر تھی
وہ اسے ایک بڑی فوجی طاقت سمجھ رہے تھے۔
انہیں یہ بھی امید تھی کہ اوسٹرین ایمپائر جنگ میں جرمنی کی مدد کرے گی۔
جبکہ عملی طور پر وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
دوستو، ہٹلر نے اوسٹریا میں اپنے قیام کے دوران جمہوریت کے علاوہ دو سبق اور بھی سیکھے تھے۔
ایک یہودیوں سے نفرت اور دوسری آرین ریس
یعنی جرمن نسل کو برتر سپیرئیر سمجھنے سے محبت۔
اس کے علاوہ انہوں نے مارکس ازم، عدم تشدد کے نظریات سے نفرت بھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
0 Comments
Thank you for all friends